مالی سال 2022-23ء کیلئے 9 ہزار 502 ارب روپے کا نیا بجٹ پیش

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 2022-23ء کا چار ہزار ارب سے زائد خسارے کا 9 ہزار 502 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا۔ تنخواہوں میں 15، پنشن میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد تک لے جانے کا ہدف رکھا گیا ہے، قرض کی اور سود کی ادائیگی کیلئے 3 ہزار 950 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 7 ہزار 4 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ دفاع پر ایک ہزار 523 ارب روپے خرچ ہونگے۔
سپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کیا۔اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر ارکان نے بھی شرکت کی جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے حسب معمول ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا اور اپوزیشن کی نشستیں خالی رہیں۔ بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ اتحادی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرنا اعزاز کی بات ہے، حکومت میں تمام اکائیوں کی نمائندگی ہے، چار سالوں سے معاشی ترقی رک گئی اور قومی اتحاد تتر بتر ہو گیا، سابقہ حکومت میں ہر چیز کی قیمت بڑھی، ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، سابق حکومت کے دور میں عام آدمی بری طرح متاثر ہوا، غریب اور متوسط طبقے کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ پونے چار سال میں ایک ناتجربہ کار ٹیم نے ملکی معیشت ڈبو دی، گزشتہ حکومت میں ہر سال ایک نیا وزیر خزانہ بجٹ تقریر کرتا رہا۔ یہ لوگ بات کر کے مکر جانے کے ماہر ہیں، یہ عالمی اداروں کے ساتھ بھی بات کر کے مکر گئے۔ انہوں نے عالمی اداروں کے سامنے بھی اپنا موقف تبدیل کیا، معیشت کے سٹرکچر کے بگاڑ کودرست کرنے کے لیے ریفارمز کی ضرورت ہوتی ہے، گزشتہ حکومت اصلاحات سے دامن چراتی ہے، جس وجہ سے آج معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو سکی۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے، ہم یہ ذمہ داری آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن یہ ملک کا نقصان ہے۔ ہم نے معیشت تباہ حال ہونے کے باوجود اقتدار لیا۔ الیکشن کا اعلان کرتے تو ملک دوبارہ پاوں پر کھڑا نہ ہوسکتا۔ وہ ساری تبدیلیاں کریں گے جس سے ملک کو فائدہ ہو گا، یہ جانتے ہوئے حکومت میں آنے کا فیصلہ کیا کہ معیشت خراب ہے، دوآپشن تھے ایک الیکشن کا اعلان کردیتے، ہم نے دوسرا راستہ اپنا کرمشکل فیصلے کیے، مشکل فیصلوں کی کڑی ابھی مکمل نہیں ہوئی، ہم نے پہلے بھی کیا اوراب بھی کرکے دکھائیں گے۔ ترقی ہوتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بے قابو ہو جاتا ہے، ہمیں کوئی نئی سوچ اپنانی ہو گی، ہمیں امرا کے بجائے غریب کوسہولیات دینا ہوں گی، ہم مشکل فیصلوں کیلئے تیار ہیں، ہمیں معاشی ترقی کی مضبوط بنیاد رکھنا ہوگی۔
وزیر خزانہ نے کا کہنا تھاکہ معشیت کے ڈھانچہ جاتی بگاڑ کو درست کرنے کے لیے بنیادی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کا ایک فوری منفی رد عمل بھی دیکھنے میں آتا ہے مگر معشیت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجاتی ہے، گزشتہ حکومت ایسے اقدامات سے کتراتی رہی، اس لیے وہ تمام اصلاحات موخر ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آج معشیت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی اور خوشحالی ہم نے دور ہوگئی۔ موجودہ حکومت کے پاس بہت کم وقت ہے، ہم بڑی آسانی سے ان تبدیلیوں کو آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن اس میں ملک کا نقصان تھا، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام تبدیلیاں کی جائیں گی جن نے معشیت اور ملک کو فائدہ ہوگا۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم یہ جانتے ہوئے حکومت میں آئے تھے کہ ملک کی معشیت کی حالت خراب ہے، ہمارے پاس دو آپشن تھے، ایک تو یہ کہ ملک کو اسی حالت میں چھوڑتے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیتے مگر اس طرح معشیت کا بیڑا غرق ہوجاتا اور ملک کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا مزید مشکل ہوجاتا، اس لیے ہم نے دوسرا راستہ اپنایا اور مشکل فیصلے کرنا شروع کیے، یہ ہی ترقی کا راستہ ہے، ہم نے پہلے بھی یہ کیا ہے، ہم کرسکتے ہیں اور ہم کرکے دکھائیں گے۔ ہم نے ہمیشہ قومی مفاد کو اپنے سیاسی مفاد پر ترجیح دی ہے، اس وقت بھی ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے، ہماری معشیت کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر معاشی ترقی کی شرح 3 اور 4 فیصد کے درمیان رہتی ہے جو ہماری آبادی کی شرح سے مطابقت نہیں رکھتی، اس کے برعکس جب معاشی ترقی کی شرح 5 یا 6 فیصد سے اوپر جاتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ قابو سے باہر ہوجاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم معیشت کو چلانے کے لیے امیر طبقے کو مراعات دیتے ہیں جس سے درآمدات بڑھ جاتی ہیں جب کہ برآمدات وہیں کھڑی رہتی ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس مسئلے سے نمنٹنے کے لیے ہمیں نئی سوچ کو اپنانا ہوگا اور ایک قوم کے طور پر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، ہمیں معیشت کو چلانے کے لیے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے کو مراعات دینا ہوگی جس سے مقامی پیداوار بڑھے گی اور زراعت کو بھی ترقی ملے گی۔ ہمیں غریب کے معاشی حالات کو سنوارنا ہوگا، غریب طبقے کو سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ اس کی آمدن بڑھے، جب غریب کی آمدن بڑھتی ہے تو وہ ایسی اشیا خریدتا ہے جو ملک کے اندر تیار ہوتی ہیں، ایسی اشیائے صرف پر خرچ کی گئی رقم سے درآمدات نہیں بڑھتیں، لیکن ملک کے اندر معاشی ترقی کا عمل شروع ہوجاتا ہے، ایسا کرنے سے ہم مستقل بنیادوں پر جامع ترقی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشی ترقی کی بنیاد رکھنی ہوگی، ایسی مضبوط بنیاد جس پر مستحکم معاشی ترقی کی شاندار عمارت تعمیر ہوسکے اور جو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم رہے، ہمیں برآمدات بڑھانے، زراعت، آئی ٹی سیکٹر اور صنعتی برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ ہمیں زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کی مسابقت کو بڑھانا ہوگا تاکہ وہ عالمی منڈی دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں، ہمیں کاروبار کرنے کے مواقع کو آسان اور بہتر بنانا ہوگا تاکہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔ ہمیں مشینری اور خام مال کی درآمد کے بعد اس کی ویلیو میں اضافہ کرکے برآمد کرنا ہوگا، اس طرح جتنی درآمدات بڑھیں گی اس سے کہیں زیادہ بر آمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں